> غزل اتنا ٹوٹا ہوں کے چھونے سے بکھر جاؤں گا. اب اگر اور آزماؤ گے تو مر جاؤں گا. اک عارضی مسافر ہوں میںتیری کشتی میں. دوست تو جہاں مجھ سے کہے گا میں اتر جاؤں گا ہاتھ پکڑو گے تو سایہ بن کے ساتھ رھوں گا ہاتھ چھوڑو گے تو ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاؤںگا
گناه تین چیزوں سے شروع هو تاهے آنکھ دل پاوں آنکھ سے جب دیکھتے هے تب گناه شروع هوتاهے پھر دل میں اس کے بار میں خیال آ نا شروع هو جاتے هیں پاوں کی مدد سے اس کی طرف چلنا شروع کر دیتے هےاس لی هی کها گے هے ک آنکھ نیچی رکھ کرو چلو۔ ...
,السلام وعلیکم ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبدالمطلب اپنے لخت جگرعبداللہ کا ہاتھ تھامے جارہے تھے کہ ان کا گزرورق بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کی ہمشیرہ ام قتال کے کے پاس ہوا جوکعبہ کے قریب تھی تو اس نے عبداللہ چہرے کو دیکھا کر پوچھا کہاں جارہے ہوتو آ پ نے کہا اپنے والد کے ہمراہ پھر اس نے رازداری سے پیشکش کی ابھی مجھ سے ہمبستر ہو اور سو اونٹ پکڑ لے جو تجھ سے قربان ہو چکے ہیں تو عبداللہ نے کہا اب تم میں والد کے ہمراہ ہوں ان سے جدا نہیں ہو سکتا چنانچہ عبدالمطلب وہاب بن عبد مناف بن زہرہ کے پاس چلے آئے جو ہرلحاظ سے بنی زہرہ کا رئیس تھا اس نے اپنی بیٹی آمنہ آپ کے عقد میں دے دی حسب دستور آپ انہیں کے مکان پر ہمبستر ہو ئے اور ان کو رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا حمل ٹھہر گیا پھر وہ وہاں سے آکر اس عورت کے پاس گئے جس نے پیشکش کی تھی اور اسے کہا کیا وجہ ہے کہ تم کل کی پیشکش کو دہراتی کیوں نہیں تو اس نے جواب دی...
Comments
Post a Comment